افکار ضیاء

حمدِ پروردگارِ عالم

ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی

خدا کا شکر کرو، بس اسی کی حمد کرو
 یہی وسیلہ ہے غم سے نجات پانے کا
خدا کے ذکر کے ہمراہ ذکر آلِ نبیؐ
یہی ہے راستہ غافر!، جناں میں جانے کا
***


افکار ضیاء

مناقب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ

مظہرِ رحمت

ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی

ہے خوشبوؤں سے معطر فضا مدینہ میں
مہک رہا ہے گلِ آمنہ مدینہ میں

نزولِ رحمتِ ربِّ عُلا نہ ہو کیونکر
کہ پیدا  مظہرِ رحمت ہوا مدینہ میں

جھکے نہ شمس بھی کیونکر بھلا مدینہ میں
ہیں محوِ خواب، رسولِ خدا مدینہ میں

بنادے ایسا مقدر مرے خدا میرا
بسر ہوں میرے صباح و مسا مدینہ میں

ابھی خیال میں ابھرا تھا نقشِ پائے حضور
پہنچ کے فکر نے سجدہ کیا مدینہ میں

مثال گنبدِ خضرا کی دوں تو کس سے دوں
کہ شمس آتا ہے بہرِ ضیا مدینہ میں

عطا ہوئی اسے دونوں جہان کی دولت
گیا جو بن کے نبیؐ کا گدا مدینہ میں

ہے دل میں آرزو جاکر نہ آؤں میں واپس
نبیؐ کے پاس بنے مقبرہ مدینہ میں

مزارِ پاک پہ جب دیں گے شاہؑ کا پرسہ
بنے گی اشکوں سے کرب وبلا  مدینہ میں

دعا ہے آپ کے غافر کی، اے مرے آقا
بلالیں مجھ کو معَ الاَقْرَبا، مدینہ میں

***
افکار ضیاء

مناقب حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا

پیغمبرِ صنفِ نسواں فاطمہ زہراؑ

ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی

آئیں بن کے دورِ پُرآشوب میں کوثر بتول
گویا اپنے دور کی ہیں فاتحِ خیبر بتول

تیرے رتبہ کی بلندی ہو بیاں کیونکر بتول
تھک چکے پرواز کرکے فکر کے شہپر بتول

جشن کرتے ہیں فرشتے آسمانوں پر بتول
آپ جو تشریف لائی ہیں نبیؐ کے گھر بتول

آپ جب پیدا ہوئیں، تصدیقِ کوثر ہوگئی
طعنہ زن افراد سارےہوگئے ابتر ، بتول

آپ صدیقہ ہیں، تصدیقِ صداقت کے لئے
بن گیا رضوانِ جنت، آپ کا نوکر بتول

دیکھا میدان مباہلہ میں یہ منظر عجیب
آپ کے نقش قدم پہ چلتے ہیں حیدر، بتول

ضعف سے پیغمبرِ اسلامؐ کو راحت ملی
ہے کوئی دارالشّفا یا آپ کی چادر بتول

واعظِ کج فکر! حق کے راستے ہیں صرف پانچ
احمدِ مرسل، علی، شبیر اور شبر، بتول

جیسے پیغمبرؐ تھے رہبر، صنفِ مرداں کے لئے
صنفِ نسواں کے لئے ہم شانِ پیغمبرؐ بتول

آپ کی مدحت کا حق، غافرکرے کیسے ادا
آپ ہیں خورشید، میں ہوں ذرّہ احقر بتول

***
افکار ضیاء

مناقب حضرت علی علیہ السلام

فضائل علی علیہ السلام

ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی

علی علیم ہیں، عالم علی، علی آقا
علی ولی، علی والیِ دیں، علی مولا

علی حقیقت روح و روانِ عالم ہیں
علی ہیں نوح کی کشتی، جہان ہے دریا

علی معلم جبریل ہے خدا کی قسم
سکھائے اس نے ہی آدم کو معتبر اسماء

علی ہیں مظہرِ دیں، کفر دشمنی انکی
علی ولی خدا، دشمنِ عدوئے خدا

علی ہی حج ہیں، علی کعبہ ہیں، علی زمزم
علی سعی ہیں، علی ہی صفا، علی مروہ

علی صراط ہیں، میزاں علی، علی محشر
علی بہشت ہیں، کوثر علی، علی طوبیٰ

علی اذان و اقامت، علی رکوع و سجود
علی قیام و قعود و سلام اور دعا

علی وصی نبی ہیں، علی ہی نفس خدا
پدر بنے ہیں اماموں کے، شوہرِ زہرا

علی، محمد و رحمٰن و نور و کوثر، قدر
علی، مزمل و یاسین و یوسف و طہٰ

جدا علی سے میں ہوجاؤں یہ خدا نہ کرے
جدائی ان سے ہی کردیتی ہے خدا سے جدا

بنا ولائے علی، ہر ثواب، بے مفہوم
نماز، ان کی محبت بغیر،  بے معنا

وہ گنگ ہو جو علی کی ثنا نہ کرپائے
کٹے زبان جو کر پائے نہ علی کی ثنا

قسم رسول خدا کی، علی ہی قرآں ہیں
علی بغیر، ہر اک زندگی ہے مثل فنا

اگر نصیب، ولایت کا ایک ذرّہ ہو
تمام خلق کو کافی رہے بروزِ جزا

اگر ہو دل میں ذرا بھی محبت حیدر
رہے نہ دل میں ذرا بھی محبت دنیا

علی شہید ہیں، شاہد علی، علی مشہود
علی فلاح ہیں، مُنجی علی، علی مُنجیٰ

اگر تمام جہاں ہو علی سے روگرداں
خدا گواہ، غلط راستہ جہاں نے چُنا

حیات ان کی تھی وقفِ رسول اے غافر
حیات کیجئے اپنی سپردِ شیرِ خدا
***
فخر انبیا حیدرؑ
ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی
کعبہ بولا کہ شکریہ حیدر
پاک تم نے مجھے کیا حیدر

ہم نے جب بھی کبھی سنا حیدر
قلب، تعظیم کو جھکا حیدر

تم نہ ہوتے تو دین مٹ جاتا
کعبہ رہتا صنم کدہ حیدر

ہے تمہاری رضا رضائے خدا
غیظ بھی غیظِ کبریا حیدر

ہے تمہاری ولا ہی راہ نجات
تم ہی مصداق قل کفیٰ حیدر

یہ شرف بھی تمہیں ملا حیدر
تم بنے زوجِ فاطمہؑ حیدر

آخر اس درد کی دوا کیا ہے
جو کہ سن کر اٹھا ہے، یا حیدر

نفسِ پیغمبرِ خدا بن کر
آئے بہرِ مباہلہ حیدر

آدمؑ و نوحؑ و خضرؑ کی سوگند
بن گئے فخرِ انبیا حیدر

بابِ توبہ کے بند ہونےتک
مجھ سے عاصی کا آسرا حیدر

قول لولا علی نے سمجھایا
ناصرِ دینِ مصطفےٰ حیدر

مشکلیں دیکھ کر ہوئیں کافور
میرے دل پر لکھا تھا یا حیدر

صرف مولائے کائنات نہیں
ہیں شہنشاہِ دوسَرا حیدر

یہ حقیقت ہے جان لو غافر
رونقِ بزمِ مصطفےٰ حیدر
***



افکار ضیاء

مناقب امام حسن علیہ السلام
مدح شبرؑ
ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی
اُس طرف دیکھو کہ وہ کون چلا آتا ہے
پندرہ رمضان میں اک نورِ خدا آتا ہے

نور ہی نور ہے پھیلا ہوا تا حدّ نظر
یہ گواہی ہے یہاں بدر الدّجیٰ آتا ہے

اے فقیران جہاں!، جھولیاں بھرلو آکر
بیتِ حیدرؑ میں سخاوت کا خدا آتا ہے

مدح شبرؑ ملی قرآن میں غافر ہم کو
مدح شبرؑ میں تلاوت کا مزہ آتا ہے
***
ولادتِ حسنؑ
ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی
ہدایتوں کا حسیں زائچہ مبارک ہو
ریاضِ حق میں نیا گل کھلا مبارک ہو
ہے مومنین کی خدمت میں عرض اے غافر
ولادتِ حسنِ مجتبیٰ مبارک ہو
***
ذکرِشبؑر
ضیاء الافاضل مولانا سید غافرحسن رضوی

جو قلم مدحتِ شبرؑ میں جھکا ملتا ہے
چاند کی طرح بلندی پہ اٹھا ملتا ہے

اسکی سانسوں کے فضائل کا بیاں ہو کیسے
جوکہ مصروفِ ثنا صبح و مسا ملتا ہے

سات دروازوں پہ جانے سے بھلا کیا حاصل
مانگو اس در پہ جہاں حد سے سوا ملتا ہے

یہ اگر چاہیں تو مٹی کو بھی سونا کردیں
پیرہن دیکھو تو پیوند بھرا ملتا ہے

رہ کے خود بھوکا، بھکاری کو شکم سیر کرے
ایسا دنیا میں کوئی اہل سخا ملتا ہے

اس لئےمدحِ حسنؑ میرا وظیفہ ٹھہرا
ان کے عرفان سے در اصل خدا ملتا ہے

کیوں نہ ہم فخر کریں انکی غلامی پاکر
یاں تو رضوان بھی خیاط بنا ملتا ہے

یونہی لکھتا ہوں میں غافر کے برابر میں حسن
ذکرِ شبرؑمیں عبادت کا مزہ ملتا ہے
***
کتابِ علیؑ کا پہلا ورق
ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی
جوش علیؑ میں خلق رسالتمآب کا
منضم کیا تو بن گیا پیکر جناب کا

رُوئے حسنؑ کو دیکھ کے شرما گیا گلاب
چہرہ حسیں ہے کتنا علیؑ کے گلاب کا

شمس و قمر بھی دیکھ کے حیران رہ گئے
ہے چودہویں کا چاند کہ چہرہ جناب کا

پیدائش حسنؑ سے پڑی ماند کہکشاں
چہرہ اتر گیا ہے مہہ وآفتاب کا

(بزبان ممدوح)
ہیں جنگ وصلح دونوں مساوی مرے لئے
پابند ہوں میں صرف خدا کی کتاب کا
جنگ جمل میں اونٹ کی ٹانگوں کو کاٹ کر
ثابت کرونگا لال ہوں میں بوتراب کا
۔۔۔
نوکِ قلم کی دھار تھی مسموم کس قدر
دشمن بھی بن کے رہ گیا لقمہ عذاب کا

پیمانے لاکھ چھلکیں مجھے اس سے کیا غرٖض
عادی ہوں میں تو عشق حسنؑ کی شراب کا
میں مست ہوں ولائے حسنؑ کی شراب میں
کیوں خوف ہو وہاں کے حساب و کتاب کا

غافر، خیال رکھئے گا وقتِ مطالعہ
پہلا ورق حسنؑ ہے، علیؑ کی کتاب کا
***

افکار ضیاء

مناقب  امام حسین علیہ السلام

دین کی زندگی

ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی

(الف کی قید کے ساتھ)
یہ دین کی جبین پہ تحریر ہے حسین
تو میری زندگی، مری تقدیر ہے حسین

میری جبیں جھکے کبھی چوکھٹ پہ غیر کی
تیرے فقیر کی تو یہ توہین ہے حسین

چہرے عدو کے کس لئے بگڑیں نہ بزم میں
محفل تری، خمیر  کی تفسیر ہے حسین

ملعوں ترے عدو ہیں جدھر بھی نظر گئی
ہر شیعہ کے نصیب میں توقیر ہے حسین

کربل کی شکل میں ہے وہ قصرِ گل نبی
جو کہ لہو سے تیرے ہی تعمیر ہے حسین

ہے فدیہ ذبیح، فقط مختصر سخن
حق تو یہ ہے خلیل کی تفسیر ہے حسین

مفتی ہے غرق کس لئے ظلمت کی قعر میں
جبکہ بہشت کے لئے تنویر ہے حسین

صلحِ حسن سمجھئے سکوتِ شریعتی
دینِ نبی کی بولتی تصویر ہے حسین

غافر کو تم نے بخشی ہے قوت کہ وہ لکھے
شعروں کی شکل میں جو یہ تقریر ہے حسین
***


افکار ضیاء

مناقب امام سجاد علیہ السلام

بیمار سے ڈر

ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی

وہ جسے مدح کے اشعار سے ڈر لگتا ہے
گویا اس شخص کو ابرار سے ڈر لگتا ہے

ظلم دیکھے تو بھلا کیسے شہِ دیں کی طرف
اس کو عباس کی تلوار سے ڈر لگتا ہے

تیر و تلوار بہت دور کی چیزیں ہیں جناب
شیر کی چشمِ شرربار سے ڈر لگتا ہے

ایسے تعمیر کیا قصرِ وفا دریا پر
اب بھی دریا کو وفادار سے ڈر لگتا ہے

فوج وہ جنگ کرے کیسے بھلا حیدر سے
جس کو میدان میں عمار سے در لگتا ہے

اس لئے اٹھ نہ سکا پھر سے سوال بیعت
اس کو شبیر کے انکار سے ڈر لگتا ہے

تختہ دار سے میثم نے یہ اعلان کیا
بزدلوں کو رسن و دار سے ڈر لگتا ہے

ایسے کچھ مدحِ علی خوں سے رقم کی، اب تک
دار کو میثمِ تمار سے ڈر لگتا ہے

عشق سچا تھا تو گلزار بنی آتش بھی
جھوٹے عاشق کو تو گلزار سے ڈر لگتا ہے

ایک تو غار میں اور ایک جبل پر پہنچا
ہے دلالت، انہیں تلوار سے ڈر لگتا ہے

وہ تھا کرار جو تلواروں میں سویا، لیکن
اِن کو تلوار کی جھنکار سے ڈر لگتا ہے

جانے کیا رعب تھا سجاد کے رخ پر غافر
ظلم کو آج بھی بیمار سے ڈر لگتا ہے
***


افکار ضیاء

افکار ضیاء

افکار ضیاء

افکار ضیاء

مناقب امام رضا علیہ السلام
مدح رضاؑ
ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی
میرے لبوں پہ آج جو مدحت رضا کی ہے
اپنے غلام پر یہ عنایت رضا کی ہے

شرما رہا ہے چاند، خجِل چاندنی ہوئی
کاظمؑ کے گھر میں آج ولادت رضا کی ہے

قرطاس جھومتا ہے ولایت کے جوش میں
وردِ زبانِ خامہ جو مدحت رضا کی ہے

جیسے علیؑ نجف میں، خراساں میں بھی علیؑ
یوں ہی نجف کی مثل، زیارت رضا کی ہے

مامون دنگ رہ گیا "اپنا سا منھ لئے"
دیکھا، علیؑ کی مثل سیاست رضا کی ہے

وہ روزِ عید ہو کہ ولایت کا مسئلہ
معبود کی رضا میں رضایت رضا کی ہے

کفر و نفاق و شرک کا بستر کیا ہے گول
میزانِ عدل، فہم و فراست رضا کی ہے

قالیں کا شیر اہلِ جہاں سے یہ کہہ گیا
بے جان چیز پہ بھی حکومت رضا کی ہے

کھائی انھوں نے منھ کی جو نازاں تھے علم پر
نخوت کا سر کچلنا ہی عادت رضا کی ہے

دعبل کی خاکِ پا پہ بھی سجدہ کریں گے ہم
ان کی طرف نگاہِ عنایت رضا کی ہے

معروف نے بتایا ہے طوفان روک کر
پرنور دل میں شمعِ محبت رضا کی ہے

غافر! گواہ اس پہ "اطیعوا" کا لفظ ہے
دونوں جہاں پہ فرض اطاعت رضا کی ہے
***
ہمسفر میرا
ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی
تیرے در پر جھکا ہے سر میرا
مدعا جلد پورا کر میرا

جس زمیں پر پڑے ہیں پاؤں ترے
اس زمیں پر رکھا ہے سر میرا

چومتا ہوں میں ایک بار ضریح
منھ مہکتا ہے سال بھر میرا

نام کا تیرے ورد کرتا ہوں
کیا بگاڑیں گے جادوگر میرا

کوئلے، گرچہ پہلوؤں میں ہیں
پھربھی پرنور ہے گہر میرا

آج مانا کہ ظلمتوں میں ہوں
ایک دن آئے گا قمر میرا

کربلا ساتھ تیرے جاؤں گا
کتنا بہتر ہے ہمسفر میرا!

خاکِ مشہد سے ہے خمیر مرا
طوس کی سرزمیں ہے گھر میرا

موت آجائے گر خراساں میں
کتنا اچھا رہے سفر میرا

کم ہے مدح رضا میں اے غافر
پورا جیون ہو گر بسر میرا
***

رضاؑ کے دیار میں
ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی
ارماں مچل رہے ہیں دل بے قرار میں
دیکھوں اتر کے میں بھی تہہ انتظار میں
پلکوں کو شامیانہ بنایا ترے لئے
آنکھیں بچھی ہوئی ہیں تری رہگزار میں

لیکن یہ معجزہ ہے کرشمہ ہے یا سحر
بے حد قرار ملتا ہے اس اضطرار میں

ایراں کی سمت آئیں تو کس طرح آفتیں
شیعوں کی مملکت ھے رضا کے حصار میں
کچھ لوگوں کو میانہ روی سے گریز ہے
کوئی پہاڑ پہ ہے تو کوئی ہے غار میں

بس یوں ہی جس کو چاہا خلیفہ بنالیا!
نادان! فرق ہوتا ہے تسبیح و ہار میں

خیرہ ضیا سے چشمِ نکیرین ہوگئیں
خاکِ شفا میں لے کے گیا تھا مزار میں

یاد آگئی محبتِ زینبؑ حسینؑ سے
بھائی کا تذکرہ ھے بہن کے جوار میں
معصومہ! خوش نصیب ھے غافر بے انتہا
اس کو جگہ ملی ھے تمہارے دیار میں
***

بزم ضیاء. تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.