افکار ضیاء

مناقب امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف


گلِ نرجس( عج)

ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی


ہے فرزندِ والفجر و یاسین و طہٰ
ہے مصداقِ کوثر، وہ فرزند زہرا



ہے تفسیرِ والقدر و عکّاسِ وحدت

ہے شاہِ مدینہ کا وہ شاہزادہ



وہ وحیِ الٰہی، وہ قرآنِ ناطق

وہی فخر موسیٰ وہی فخر عیسیٰ.


مری بادشاہت اسی میں ہے پنہاں
میں بن جاؤں دربانِ دہلیزِ زہرا

انہیں تم مٹانے کی کوشش نہ کرنا
ہیں بنتِ نبی کی دعا سارے شیعہ

ہمارا شرف ہے انہیں کی غلامی
عقیدت سے دل ان کو کرتا ہے سجدہ

جو خضرا کی وادی میں نرجس کا گل ہے
وہ     مولا      ہمارا      وہ     آقا    ہمارا

اگر دل میں الفت ہو آلِ نبیؐ کی
یہی آخرت کا بنے گی ذخیرہ

خدا کی قسم گر ولا ہو نہ ان کی
تو اندھیر دنیا، اندھیری ہے عقبیٰ

ہلاکت ہے اولادِ زہراؑ سے دوری
ہے ان سے تمسک بقا کا وسیلہ

قسم تیری عظمت کی تجھ کو خدایا
دکھادے ہمیں اپنی رحمت کا جلوہ

یا وادیِّ خضرا میں پہنچادے ہم کو
یا پانی پہ دکھلادے ان کا مصلیّٰ

وظیفہ گلِ نرجسی ہے ہمارا
وہ خوشبو سے جس کی معطر ہے دنیا

تمنا ہے غافر یہی اب ہماری
ہو نزع کے عالم میں دیدارِ مولا

***



عربی اردو

 ترانہ "نشید الحجت"

ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی

۵/ربیع الثانی ۱۴۳۸.ھ    ۴/جنوری ۲۰۱۷.ء

عربی

یا ولی العصر یابن العسکری المنتظر
نحن جند لک فاظھر ایھا الثانی عشر


نتمنی دولۃ الحق اذا الحق ظھر
کی نضحّی دونک الارواح یا خیر البشر


یابن طٰہٰ اسمع ھتاف القوم یعلو و یثور
ھٰذہ الدنیا تحیّیک ابتھاجاً و سرور


یا لواء الحق رفرف عالیاً فوق الحصون
واحملی البشریٰ و غنّی باھاریج اللخون
واطربی فی مولد المھدی قریرات العیون



اسفرت عنّا الظلم
وانجلت عنّا البھم
مذ تجلّیٰ بالکرم
واستقامت فیہ ارکان الھدیٰ للمومنین

اردو

آپ ہیں اس عصر کے حاکم امامِ مُنتَظَر
ہم سپاہی آپ کے ہیں نرجسی نور نظر



آرزو ہے دولت حق کا جہاں میں ہو قیام
آپ کے بن ہے ہماری روح بیکل یا امام


ابن طہ جلد سن لیں قوم کی آہ و فغاں
آپ کی آمد کی خوشیاں اب منائے یہ جہاں


آن کر حق کا علم اس دہر میں لہرائیے
کفر و ظلمت کو مٹاکر نورِ حق چمکائیے


آپ کے دیدار سے آنکھوں کو مل جائے سرور
آپ کا دیدار ہی ہم عاشقوں کا ہے غرور


دور ہوں رنج و الم
نور پہنچا دے بہم
برسے یوں ابرِ کرم


ہوں ہدایت کے فلکؔ پر اے خدا سب مومنین
پرچمِ مہدی کا سایہ ہو نصیبِ صالحین

***
افکار ضیاء

نوحہ

میرا بھائی نہ رہا

ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی

(بین)
التجا ہے یہ ہماری اے خدایا! تجھ سے
بھائی عباس سا، زینب سی بہن سب کو دے
بازو اس بھائی کے اللہ سلامت رکھنا
کام بس جس کا ہے بہنوں کی حفاظت کرنا
شیر سا بھائی کبھی بھی نہ بہن سے بچھڑے
لب سے خواہر کے کبھی بھی نہ یہ نوحہ نکلے
'''''
میرا بھائی نہ رہا، میرا غازی نہ رہا
زینب ِ خستہ جگر کہتی ہیں یہ رو روکر
میرا بھائی نہ رہا میرا غازی نہ رہا

کس میں جرٲت کہ کبھی آنکھ اٹھاکر دیکھے
دربدر آل پیمبر کو پھراکر دیکھے
جب تلک شیرِ غضنفر تھا شہِ دیں کی سِپَر
میرا بھائی نہ رہا میرا غازی نہ رہا

جب وہ زندہ تھا تو دیکھا نہ کسی نے مجھ کو
بعدِ عباس ستایا ہے سبھی نے مجھ کو
سر سے چھینی سے ستمگر نے ہماری چادر
میرا بھائی نہ رہا میرا غازی نہ رہا

کون اب اس کی جگہ خیموں کا پہرہ دے گا
کون اب خدمتِ سرور کا سلیقہ دے گا
شمر سے کون بچائے گا سکینہ کے گہر
میرا بھائی نہ رہا میرا غازی نہ رہا

کیسے ٹوٹے ہوئے نیزے کو سنبھالے زینب
کیسے اجڑے ہوئے کنبے کو سنبھالے زینب
شاہِ والا کی یتیمہ کو سلاؤں کیونکر
میرا بھائی نہ رہا میرا غازی نہ رہا

میری چادر کی اسی نے تو ضمانت لی تھی
رب نے کس درجہ اسے غیرت و قوت دی تھی
جب وہ زندہ تھا، مرے سر سے نہ سَرکی چادر
میرا بھائی نہ رہا میرا غازی نہ رہا

لشکرِ شاہِ دوعالم کا علمدار تھا وہ
فوجِ اعدا کے لئے آہنی دیوار تھا وہ
فخر سے اہلِ مدینہ اسے کہتے تھے قمر
میرا بھائی نہ رہا میرا غازی نہ رہا

لیکے مشکیزہ کو نکلا تھا وہ پانی کے لئے
خشک ہونٹوں پہ سمندر کی روانی کے لئے
اب بھلا کون سکینہ کے کرے گا لب تر
میرا بھائی نہ رہا میرا غازی نہ رہا

ایسا غیور کہ غیرت بھی فدا ہے اس پر
وعدۀ پردۀ زینب کی قضا ہے اس پر
اس لئے نیزہ پہ رُکتا نہیں عباس کا سر
میرا بھائی نہ رہا میرا غازی نہ رہا

اہلِ بیتِ نبویؐ شام کے بازاروں میں
اتنی غیرت بھی نہ تھی ہائے ستمگاروں میں
غیرتِ احمدِ مرسلؐ کو بچاتے بڑھ کر
میرا بھائی نہ رہا میرا غازی نہ رہا

آلِ سفیان نے اس درجہ ستایا غافر
لب پہ زینب کے یہی رہتا تھا نوحہ غافر
میرے پردہ کے محافظ! میں ہوئی بے چادر
میرا بھائی نہ رہا میرا غازی نہ رہا
***


افکار ضیاء

نوحہ

ماں کے گلِ تر قاسم ؑ

ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی

اے مرے نورِ نظر، اے مرے دلبر قاسم
لاش پہ گریہ کناں ہے تری مادر قاسم

لاش پامال ہوئی تیری سُمِ اسپاں سے
لائے کس طرح تجھے خیمہ میں سرور قاسم

کس طرح چین سے سوؤگے بھلا خاروں میں
اے گلِ نازنیں، مادر کے گلِ تر قاسم

چشمِ عالم نے کبھی دیکھی نہ ایسی شادی
خون کے پھول کھلے ہیں ترے سر پر قاسم

بس ترے ہاتھ میں مہندی کی کمی تھی بیٹا!
خوں کی مہندی نے کئے ہاتھ ترے تر قاسم

سوچتی تھی کہ بہو لاؤں گی لیکن اب تو
اپنے ارمان کو دفنائے گی مادر قاسم

پوچھ لے صغریٰ اگر، قاسم ذیشاں ہے کہاں
کیا بتائے گی بھلا اس کو یہ مضطر قاسم

جب تلک زندہ تھا توتھی نہ کسی میں جرٲت
اب مرے سر سے چھنے گی مری چادر قاسم

کیا مدینہ میں پہنچکر میں انہیں دوں گی جواب
تیرے احباب جو پوچھیں تجھے آکر قاسم

کربلا غافرِ غمگیں کو بلالو پھر سے
یہ بھی ادنیٰ سا تمہارا ہے سخنور قاسم
***


افکار ضیاء

نوحہ
ہنسلیوں والے اصغرؑ

ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی

اے مرے لال مرے ہنسلیوں والے اصغر
اپنی مادر کو کیا کس کے حوالے اصغر

تیرے قاتل کے مرے لال! کیا اولاد نہ تھی
کمسنی میں جو چبھوئے ترے بھالے اصغر

خشک تھا تیرا گلا تیرِ ستم جب کھایا
آ تری دائی تجھے دودھ پلالے اصغر

کس طرح جلتی ہوئی ریت پہ نیند آئے گی
میرے گلفام! مرے نازوں کے پالے اصغر

بِن ترے زندہ نہ رہ پاؤنگی میرے بیٹا!
پاس اپنے ہی تو مادر کو بلالے اصغر

گود خالی ہے مری سونا ترا گہوارہ
تجھ کو ڈھونڈوں میں کہاں گود کے پالے اصغر

بِن ترے سارا جہاں لگتا ہے اندھیر مجھے
اچھے لگتے نہیں اب مجھ کو اجالے اصغر

تیرے مرنے سے ستاروں کی چمک ختم ہوئی
اے مرے چاند! مرے گھر کے اجالے اصغر

تیری رودادِ الم کرتا ہے غافر تحریر
اپنے روضے پہ اسے جلد بلالے اصغر
***

افکار ضیاء

ہائے نوجواں اکبر
ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی
ہائے نوجواں اکبر، ہائے نوجواں اکبر
لاشہ پسر پر بھی شہ کی یہ فغاں اکبر

چاند امّ لیلیٰ کے، قلب شاہ والا کے
کیوں بنا لیا رن کو اپنا آشیاں اکبر

ہوگئے خفا کس سے گھر کو کیوں نہیں چلتے
دو جواب اے بیٹا! لو نہ امتحاں اکبر

تیرے بعد اے بیٹا کیا کروں گا میں جی کے
خاک ایسے جینے پہ جب نہ ہو جواں اکبر

کیا جواب دیں بیٹا! پوچھے گر تمہیں صغریٰ
کس طرح سے سمجھائیں بولو نوجواں اکبر

ماں نے تیری شادی کے بیٹا خواب دیکھے تھے
بن گیا ترا سہرا خون کے نشاں اکبر

کچھ نظر نہیں آتا باپ کو سہارا دو
چل رہی ہیں آنکھوں میں غم کی آندھیاں اکبر

خون سے وضو کرکے منتظر نمازی ہیں
لہجہ پیمبر میں پھر کہو اذاں اکبر

کس طرح سکوں پائیں کیسے روکیں اشکوں کو
چبھ رہی ہیں سینے میں تیری ہچکیاں اکبر

تھا بہار کا موسم گل نہ کھل سکے ہائے
گلشنِ شہِ دیں میں آگئی خزاں اکبر

ہے قلم مرا گریاں قلب میں نہیں طاقت
کیا بیاں کرے غافر تیری داستاں اکبر
***

افکار ضیاء

مناقب ابو طالب علیہ السلام
ابوطالبؑ کا ایمان
ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی
کیا جب سے معین مدح کا عنوان، ابوطالب
تبھی سے ہوگئے گھر میں مرے میہماں ابوطالب

قلم کاغذ پریشان، فکر ہے حیراں ابوطالب
قوافی ڈھونڈھنے میں ہیں یہ سرگرداں ابوطالب

تمھارے ساتھ جب سلمانؒ کے ایمان کو پرکھا
رہا سلماں پہ بھاری آپ کا ایماں ابوطالب

تمھارے فضل سے جو شخص بھی آنکھیں چراتا ہے
وہ انسانی لبادہ میں ہے ایک شیطاں، ابوطالب

ہیں غوّاصانِ بحرِ علم بھی حیراں، ابوطالب
وہ گوہر ہیں تمھاری ذات میں پنہاں ابوطالب

کبھی آیت کبھی سورہ کبھی پارے کی صورت میں
دیئے امت کو تم نے بولتے قرآن ابوطالب

تمھاری مدح سے جو جان کر انجان بنتا ہے
رہے گا حشر کے میداں میں وہ نالاں، ابوطالب

قسم اللہ کی، اس کے مقدر میں ہلاکت ہے
تمھاری آل سے جو بھی ہے روگرداں ابوطالب

جبیں سجدہ میں ہو دل میں تمھاری آل کی الفت
ہے بخشش کے لئے کافی یہی ساماں ابوطالب

مدینہ ہو، عراق و شام ہوں وہ یا کہ ایراں ہو
تمھارے نور سے رہتے ہیں ضوافشاں ابوطالب

ہماری قبر نورانی کریں تنویرِ ایماں سے
تمھارے عادشقوں کا ہے یہی ارماں ابوطالب

کہا:خاموش کانے!، ذوالعشیرہ جیسی دعوت میں
ولایت کا کیا یوں آپ نے اعلاں ابوطالب

ابوطالب کے ایماں کے لئے کافی ہے یہ جملہ
 یقیناً ہیں ستونِ پیکرِ ایماں ابوطالب

جو دل کے اندھے ہیں کیسے وہ دیکھیں گے بھلا غافر
ہے سورج سے بھی روشن آپ کا ایماں ابوطالب
***
ایمان ابوطالبؑ
ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی
مقدر سے ہوا جو بھی ثناخوانِ ابوطالب
رہیگا ہاتھ میں اس کے ہی دامانِ ابوطالب

قسم محشرکی! محشر تک اٹھاسکتا نہیں سر کو
ہے دینِ احمدی پہ اتنا احسانِ ابوطالب

محمدؐ اور علیؑ و فاطمہؑ، شبیرؑ اور شبرؑ
نمازِ عشق کے پانچ ارکانِ ابوطالب

اگر پھیلائو تو بطحا سے ایراں تک نظر آئیں
سمیٹو گر، تو رہ جائے فقط جانِ ابوطالب

وفا گر سیکھنی ہو حضرت عباسؑ سے سیکھو
بصیرت سے پڑھو پھر۔ عہدوپیمانِ ابوطالب

مجاہد آپ کو تاریخ میں مل جائیں گے اکثر
مگر میداں کا فاتح، نورِ چشمانِ ابوطالب

اگر گمراہوں کو ہوجائے عرفانِ ابوطالب
سمجھ میں خود بخود آجائے ایمانِ ابوطالب

نجاست کفر کی، ان کے قریں کس طرح آئے گی
طہارت کے احاطہ میں ہے ایوانِ ابوطالب

نفاق و کفر کی ظلمت، نہ مانی ہے نہ مانے گی
نمایاں شمس سے زیادہ ہے ایمانِ ابوطالب

پرکھنا ہو اگر ایماں، اتارو بغض کی عینک
پڑھو اخلاص کی آنکھوں سے دیوانِ ابوطالب

ابوطالب نے رامائن پڑھی ہے یا کوئی گیتا؟
الگ ہے یا کوئی قرآن، قرآنِ ابوطالب؟

رضی اللہ کہنے سے خدا راضی نہیں ہوگا
بنی ہے مرضی معبود رضوان ابوطالب

جناں میں بیٹھنا غافر، ابوطالب کے قدموں میں
تمھارا ہوگیا مقبول، عنوانِ ابوطالب
***


افکار ضیاء

مناقب قرآن کریم
ابدی معجزہ
ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی
اس لئے حافظ محافظ ہے خدا قرآن کا
تاکہ دشمن سے بچائے زائچہ قرآن کا

لاکھ کوشش کیجئے جودوسخا چھپتی نہیں
کر رہا ہے بڑھ کے اعلاں، ہل اتیٰ قرآن کا

کیسے ہوجائے کتاب اللہ عترت سے جدا
مدحت عترت سے ہی چہرہ بنا قرآن کا

کیا ستائے گی تپش ہم کو بروز حشر کی
ساتھ میں عترت کے گر، سایہ رہا قرآن کا

اک حسینی اس کو کیسے بھولے جبکہ شاہؑ نے
نوکِ نیزہ سے بتایا مرتبہ قرآن کا

مرکزِ پاکیزگیِ رب بنی آل نبیؐ
ہے حقیقت پر گواہی انّما قرآن کا

ہے یہ دعویٰ اسمیں ہراک خشک و تر موجود ہے
آج تک یہ ادّعا سچّا رہا قرآن کا

آج تک کوئی صحیفہ مل نہیں پایا حضور
جو تقابل کرسکے بڑھکر ذرا قرآن کا

مختصر سورہ کے آگے جب یہ عاجز رہ گئی
  کیسے دنیا لائے ہم پلّہ بھلا قرآن کا

ختم غافر، ہوگئیں توریت و انجیل و زبور
تا ابد باقی رہے گا معجزہ قرآن کا
***

افکار ضیاء

مناقب معصومۀ قم سلام اللہ علیہا
شہرِقم
ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی
میں شریعت کے لالہ زارمیں ہوں
آلِ اطہار کے دیار میں ہوں

بھیک شاہوں کو دوں تو حیرت کیا
قم کی شہزادی کے جوار میں ہوں

جب سے آیا ہوں شہرِ رحمت میں
مستقل موسمِ بہار میں ہوں

شہرِ قم میں قیام ہے غافر
گویا جنت کے سبزہ زار میں ہوں
***


افکار ضیاء

مناقب حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا
خدیجہؑ، دین کا آسرا
ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی
مادرِ ھل اتیٰ خدیجہ ہے
مقصدِ انما خدیجہ ہے

یہ نہ ہوتی تو دین مٹ جاتا
گویا دیں کی بقا خدیجہ ہے

اس کی ممنوں ہے کل شریعت بھی
پائے دینِ خدا خدیجہ ہے

ملکہ ہوکے بھی سادگی اتنی
سادگی کا پتہ خدیجہ ہے

اس کی گودی میں عصمتیں کھیلیں
عصمتی دہکدہ خدیجہ ہے

خود تو معصوم یہ نہیں لیکن
محورِ قل کفیٰ خدیجہ ہے

یوں کیا عصمتی سفینہ رواں
گویا کہ ناخدا خدیجہ ہے

فضہ اس کا ہی اک نمونہ بنی
حکم رب کا دیا خدیجہ ہے

سیرتِ فاطمہؑ نے بڑھ کے کہا
پیکِ شرم وحیا خدیجہ ہے

ایک جملہ میں یوں کہو غافر
دین کا آسرا خدیجہ ہے
***
کردارِ خدیجہؑ
ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی
منکر کو جو ہوجائے اقرار خدیجہؑ کا
ہو مدح سرا وہ بھی ہربار خدیجہ کا

نانی ہیں امامت کی، مادر ہیں یہ عصمت کی
کم ظرف نہ سمجھے گا معیار خدیجہ کا

ناصر ہیں رسالت کی، حامی ہیں شریعت کی
اکرام یوں کرتے ہیں سرکار، خدیجہ کا

ہرآن شریعت کے رستہ پہ رہو قائم
دنیا کو سکھاتا ہے ایثار خدیجہ کا

تاریخِ خدیجہ سے لگتا ہے یہی غافر
تقلید کے قابل ہے کردار خدیجہ کا
***

بزم ضیاء. تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.