افکار ضیاء

نوحہ

ماں کے گلِ تر قاسم ؑ

ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی

اے مرے نورِ نظر، اے مرے دلبر قاسم
لاش پہ گریہ کناں ہے تری مادر قاسم

لاش پامال ہوئی تیری سُمِ اسپاں سے
لائے کس طرح تجھے خیمہ میں سرور قاسم

کس طرح چین سے سوؤگے بھلا خاروں میں
اے گلِ نازنیں، مادر کے گلِ تر قاسم

چشمِ عالم نے کبھی دیکھی نہ ایسی شادی
خون کے پھول کھلے ہیں ترے سر پر قاسم

بس ترے ہاتھ میں مہندی کی کمی تھی بیٹا!
خوں کی مہندی نے کئے ہاتھ ترے تر قاسم

سوچتی تھی کہ بہو لاؤں گی لیکن اب تو
اپنے ارمان کو دفنائے گی مادر قاسم

پوچھ لے صغریٰ اگر، قاسم ذیشاں ہے کہاں
کیا بتائے گی بھلا اس کو یہ مضطر قاسم

جب تلک زندہ تھا توتھی نہ کسی میں جرٲت
اب مرے سر سے چھنے گی مری چادر قاسم

کیا مدینہ میں پہنچکر میں انہیں دوں گی جواب
تیرے احباب جو پوچھیں تجھے آکر قاسم

کربلا غافرِ غمگیں کو بلالو پھر سے
یہ بھی ادنیٰ سا تمہارا ہے سخنور قاسم
***


0 Responses

ایک تبصرہ شائع کریں

بزم ضیاء. تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.