افکار ضیاء

ہائے نوجواں اکبر
ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی
ہائے نوجواں اکبر، ہائے نوجواں اکبر
لاشہ پسر پر بھی شہ کی یہ فغاں اکبر

چاند امّ لیلیٰ کے، قلب شاہ والا کے
کیوں بنا لیا رن کو اپنا آشیاں اکبر

ہوگئے خفا کس سے گھر کو کیوں نہیں چلتے
دو جواب اے بیٹا! لو نہ امتحاں اکبر

تیرے بعد اے بیٹا کیا کروں گا میں جی کے
خاک ایسے جینے پہ جب نہ ہو جواں اکبر

کیا جواب دیں بیٹا! پوچھے گر تمہیں صغریٰ
کس طرح سے سمجھائیں بولو نوجواں اکبر

ماں نے تیری شادی کے بیٹا خواب دیکھے تھے
بن گیا ترا سہرا خون کے نشاں اکبر

کچھ نظر نہیں آتا باپ کو سہارا دو
چل رہی ہیں آنکھوں میں غم کی آندھیاں اکبر

خون سے وضو کرکے منتظر نمازی ہیں
لہجہ پیمبر میں پھر کہو اذاں اکبر

کس طرح سکوں پائیں کیسے روکیں اشکوں کو
چبھ رہی ہیں سینے میں تیری ہچکیاں اکبر

تھا بہار کا موسم گل نہ کھل سکے ہائے
گلشنِ شہِ دیں میں آگئی خزاں اکبر

ہے قلم مرا گریاں قلب میں نہیں طاقت
کیا بیاں کرے غافر تیری داستاں اکبر
***

0 Responses

ایک تبصرہ شائع کریں

بزم ضیاء. تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.